08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط5
غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر5
آج انکو ڈیٹ شیٹ مل گئی تھی۔ دو ہفتہ تک ان کے فائنل پیپر سٹارٹ ہونے جا رہے تھے۔
صفا اور ماریہ دونوں بیٹھی ہوئی تھی۔ یار اب تو کبھی کبھی ملاقات ہوا کرے گی۔ ماریہ سوچوں میں تھی۔
دور تھوڑی ہوں گے جب دل کیا مل لیا کریں گے۔ صفا بولی پر یار ایسی رونق گھومنا مل بیٹھنا کہاں نصیب ہوگا بس یادوں میں رہ جاۓ گا ۔صفا بولی یہ تو ہے۔
اسکو پتا تھا اسکی شادی کے چکر میں پڑ جایں گے سب۔
ضیاء آیا ۔کیا ہو رہا ہے۔ کیا سوچا جا رہا ہے؟ تم لوگ پریشان کیوں بیٹھے ہو؟
ضیاء میں تو بزی ہوں گی۔ اس بیچاری صفا کی تو بس شادی ہو جانی۔ ضیاء صفا کو دیکھتا ہے پھر کچھ بات کے بنا چلا گیا یہ اسکو کیا ہوا ۔دونوں حیران تھیں کوئی بات کئے بنا چلا کیوں گیا۔
اگلے دن ۔۔۔۔ماریہ سنو مجہے تمسے بات کرنی ہے۔
کیا؟ ماریہ نے فورآ پوچھا۔
وہ نا اصل میں بات یہ ہے کہ پوچھنا تھا صفا کا رشتہ ہوا ہے کہیں؟
او اچھا یعنی نیت خراب ہے مسٹر کی۔ ماریہ ہنس دی۔ نہیں ہوا رشتہ کہیں پر پیپر کے بعد ہو جائے گا۔
کہاں۔ ضیاء نے پوچھا جس کی آنکھوں میں ڈر تھا۔ کہیں بھی جو اچھا لگا صفا کے گھر والوں کو۔ ماریہ نے بتایا۔
ضیاء نے سکوں کا سانس لیا۔ اچھا جاتا ہوں۔ ضیاء کو صفا کی سوچ تڑپا رہی تھی اسکو کھونے کا احساس جاگ اٹھا تھا۔
مجہے اپنے گھر میں بات کرنی چاہیے۔ انتظار خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے گھر روانہ ہو گیا۔
سب اسکو اچانک دیکھ کر بہت خوش ھوے۔
کیسی ہیں امی آپ اور ابو کے پاس بیٹھ کر بہت سی باتیں کیں۔
دونوں بہنیں بھی خوش اپنے بھائی کی لایی ہوئی چیزیں دیکھتی رہیں۔
یہ چادر میری ایک بولی۔ دونوں خوش تھیں انکا بھائی بہت پیار کرتا تھا ان سے۔ باتیں بہت کی ۔
جب شام کا وقت ہوا تو اٹھ پڑا ۔
اچھا امی ابو میں چلتا ہوں ۔سب سے ملا جسے صحن میں آیا ۔رک بیٹا اس کے ابو ضرار نے پکارا۔
جی ابو۔
جو بات کرنے آیا تھا وہ تو کی نہیں۔
ضیاء حیران ہوا ابو آپ کو کیسے پتا۔
تیرا باپ ہوں اب کیا تجھے نہیں سمجھوں گا۔
بتا۔
ابو وہ ۔ضیاء کو الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
ہاہاہا۔ چھوڑ یہ بتا کب جانا ہے۔ ضیاء ہنس کے گلے لگ گیا دو ہفتہ تک۔ میں آپ کو لینے آؤں گا۔ ٹھیک میرا بیٹا اچھا اب دیر ہو رہی ہے۔ آرام سے جانا۔
جی۔ ضیاء روانہ ہو گیا واپسی کے لئے۔
ضیاء صفدر ساری ٹیم تھک کر بیٹھ گئی ویسے انکا کام تو ہو گیا تھا پر خطرہ شاجین کا تھا۔
پھر انہوں نے سوچا مر گیا ہوگا ورنہ کچھ تو پتہ لگتا۔ یوں وہ پھر سے بزی ہو گئے۔
ادھر پیپر سٹارٹ ہو چکے تھے۔ صفا ماریہ مل کر تیاری کرتیں ضیاء بھی انکی ہیلپ کر دیتا تھا ان کے پیپر اچھے ہو رہے تھے۔
پیپر تک ضیاء ان کے ساتھ تھا پھر تو اس نے چلا جانا تھا۔ کام تو ہو چکا تھا۔
ویسے اب وہ زیادہ ٹائم ان دونوں کے ساتھ رہتا۔ ماریہ کو بھی ضیاء اچھا لگتا تھا پر وہ ضیاء کے دل کی بات جان گئی تھی اس لئے آگے نہیں بڑھی۔
صفا کو احساس تھا ضیاء پورا ٹائم اسی پر توجہ دیے رکھتا باتیں کرتا تو اسکی آنکھیں اسی پر رہتیں۔ایک دن پھر ایسا بھی آیا کے اب وہ سب مل کر رخصت ہو رہے تھے۔
نتیجہ کچھ دن بعد تھا۔ ضیاء بے سکون تھا۔ سب خاموش آج ماریہ بھی۔
جاتے جاتے پہلی بار صفا نے مڑ کر ضیاء کو دیکھا تھا پھر جدا ہو گئے سب۔
ضیاء لے آیا تھا فیملی کو اور اب وہ سب صفا کے گھر تھے۔
ضرار اور زینت دونوں نے صفا کا ہاتھ مآنگا اپنے بیٹے کے لئے۔ وہ ساتھ تھا انکو انکار کی وجہ نظر نہیں آیی پھر بھی ایک ہفتہ کا ٹائم مانگا ۔
اس ایک ہفتہ میں ضیاء نے سب کو خوب گھمایا سیر کرائی۔ سب بہت خوش تھے ۔
ضیاء کو ہاں کا انتظار تھا۔ پھر جانے پر انکو ہاں بھی ہو گئی۔ ایک ماہ شادی کا رکھا گیا۔
کیوں کے ضیاء رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔
زینت صفا کو دیکھ کر خوش ہویں ۔اچھی لگی تھی انکو۔
ماریہ کو پتہ چل چکا تھا ۔ضیاء نے ماریہ کو صفا کو بتانے سے منع کر دیا تھا کہ یہ سرپرائز ہوگا۔
ماریہ ہنسی تھی صفا کی قسمت پر رشک تھا اسکو۔ پتہ نہیں میری قسمت سوچنے لگی۔
جو ہوگا دیکھا جائے گا مجہے کیا پڑی سوچنے کی۔ بلآخر شادی کا دن بھی آن پہنچا۔ رسمیں کی گیں۔ شادی کے دن پنک لہنگے میں قیامت ڈھا رہی تھی۔
وہ تھی بھی سندر معصوم۔
الگ روپ آیا تھا اس پے ۔ماریہ اسکو چہیرتی رہی۔پھر الوداع بھی کہ دیا سب نے روتے دعا دیتے۔
صفا کو رسموں کے بعد کمرہ میں بٹھایا گیا۔ اسکو گھبراہٹ تھی۔ کون تھا وہ کیسا ہوگا۔ سوچ کے ڈر رہی تھی۔
دروازہ کھلا اسکی دھڑکنوں نے تیزی اختیار کی۔ کوئی اس کے پاس آ کر بیٹھا۔
گھونگھٹ کھولا۔ صفا چہرہ نیچے کے بیٹھی رہی۔ پھر کسی نے فنگر سے اسکا چہرہ اوپر کو کیا۔ بہت پیاری ہو تم۔
یہ آواز یہ تو ضیاء جیسی فورا سامنے دیکھا وہ ضیاء ہی تھا۔
ضیاء آپ ؟صفا نے حیرت سے دیکھا۔
جی میں آپ کا شوہر۔ مسکراہٹ میں شرارت تھی۔ مجہے آپ سے محبت ہو گئی تھی۔ پھر کیسے آپ کو کسی اور کا ہونے دیتا۔
صفا شرما گئی۔ ضیاء نے صفا کو گولڈ رنگ پہنآی ۔کیسی لگی صفا۔ ضیاء نے پیار سے پوچھا۔
بہت پیاری۔ صف نے جھکے سر کے ساتھ کہا۔
ضیاء قریب ہو کر بیٹھا اور ہاتھ تھام کے کس کی۔ صفا کا جسم کانپ رہا تھا پہلی دفعہ کسی مرد کا لمس اور شدت اسکی دھڑکنوں کو مرتعیش کر رہی تھیں۔
صفا گھبرا رہی تھی مجہے چینج کرنا ہے۔ نہیں آج اسی طرح۔ضیاء مخمور لہجے میں بولا۔ ہاتھ پکڑ کر صفا کو کھڑا کیا۔ دوپٹہ اتر کے بیڈ پڑ رکھا اور پیچھے آ کر اس کے بال کھول دیے۔
جھٹکا سے پھیل کر کا لےگھنے بال کمر پر بکھرگئے تھے۔ ضیاء مبہوت تھا اس حسن پر ۔
صفا زیور اتار دو پلیز۔ انتظار مشکل تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے اسنے اتارا پھر ضیاء کو ہوش نا رہا کچھ۔ اگلے دن سب ناشتہ کی رسم کے لئے اے۔ ماریہ بھی تھی۔ ضیاء کو صفا کے ساتھ بٹھایا ماریہ نے۔
ناشتہ کے دوران مذاق چلتا رہا اسی دوران ماریہ بولی ۔
صفا کی جگہ میں ہوتی کاش کتنا اچھا ہوتا۔
ضیاء نے فورن ماریہ کو دیکھا پر چپ رہا۔
میں نے مذاق کیا صفا۔ بھلا صفا کی جگہ تو ضیاء کے دل میں ہے۔
سب ھنسنے لگے ۔یوں وہ دن بھی گزر گیا۔
اب تو رومانوی داستان شروع تھی صفا اور ضیاء کی۔
ضرار نے ہنی مون پر بھیج دیا دونوں کو ۔جگہ انہوں نے خود پسند کی تھی سعودیہ۔
سب خوش ھوے سن کر۔
پر ماریہ کی غلطی میں کہی گئی ایک بات اس کے لئے تباہی لانے والی تھی ۔جس سے وہ انجان تھی ۔